
ماہ صفر اور زمانہ جاہلیت
ماہ صفر اور زمانہ جاہلیت
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی عقائد کی خرابیوں میں مبتلا انسانوں کو صاف ستھر اعقیدہ عطا کیا۔ غیر اللہ کے خیر وشر اور نفع و نقصان کے مالک ہونے کی تردید فرمائی، کفر و شرک اور توہمات کی دلدل میں پھنسی انسانیت کو مثالی تعلیمات سے نوازا اور عقیدہ توحید کی عظمت کو دل و دماغ میں جا گزیں کیا۔ تمام بدعات ، خرافات و توہمات سے ہٹا کر انسانوں کا رشتہ اللہ رب العزت کی ذات سے جوڑا۔
اسلام کے آنے سے پہلے لوگ مختلف قسم کی بد عقید گیوں اور طرح طرح کی خرافات میں مبتلا تھے۔ بد شگونی لینا، پرندوں کے ذریعے فال نکالنا، پتھروں اور دیگر چیزوں سے نفع نقصان کو منسوب کرنا، ستاروں کو دیکھ کر اچھائی اور برائی کے فیصلے کرنا، جانوروں کے ذریعے بد گمان ہونا، اس طرح کی بے شمار خرابیاں عہد جاہلیت کے عرب معاشرے میں پائی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک ماہ صفر اور اس کے متعلق تو ہم پرستی بھی ہے۔
اس ماہ کو وہ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے اور اعلان کروایا کرتے تھے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے اور محرم کا مہینہ اس کے بعد ہو گا ۔ ان کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے اور اسے کفر قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ.
مہینوں کو آگے پیچھے کر دینا، کفر میں زیادتی ہے “۔
اس کی تردید کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة، ولا صفر” (بخاری و مسلم)
حدیث کی وضاحت:
لا عدوى (کوئی بیماری خود نہیں لگتی): یعنی بیماری بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتی، بلکہ اللہ کے حکم سے لگتی ہے۔ تاہم، اسلام میں احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہے۔
ولا طيرة (نہ کوئی بدشگونی): یعنی کسی چیز سے بدشگونی لینا غلط ہے، کیونکہ اسلام توکل اور حسنِ ظن کی تعلیم دیتا ہے۔
ولا ہامة (کوئی اُلو کا وہم نہیں): عرب جاہلیت میں عقیدہ تھا کہ مرنے والے کی روح اُلو کی شکل میں آتی ہے، اس کی نفی کی گئی۔
ولا صفر (نہ کوئی صفر کا منحوس مہینہ ہے): جاہلیت میں لوگ ماہِ صفر کو نحوست والا سمجھتے تھے، یا پیٹ میں ایک بیماری کا وہم تھا، نبی ﷺ نے دونوں کو غلط قرار دیا۔
اسلام ہر قسم کے وہم و گمان، بدشگونی اور جھوٹی باتوں سے روکتا ہے اور ہمیں مکمل یقین دلاتا ہے کہ ہر چیز کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
ماہِ صفر اور جاہلیت کے حوالے سے کئی غلط فہمیاں اور توہمات پائی جاتی تھیں، خصوصاً زمانۂ جاہلیت میں عربوں میں یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا، اور وہ اسے بدشگونی، آفات اور بلاؤں کا مہینہ تصور کرتے تھے۔
صفر کو صفر کہنے کی وجہ
اس مہینے میں عرب اپنے گھروں کو خالی کر دیتے تھے، کیوں کہ وہ ذوالقعدہ، ذی الحج اور محرم الحرام میں ان مہینوں کی حرمت کی وجہ سے جنگ اور لڑائی بند رکھتے تھے۔ چوں کہ یہ تینوں مہینے ایک ساتھ ہوتے ہیں، اس لیے ان کے گزرتے ہی عرب جنگوں کو فوراً دوبارہ شروع کر دیتے تھے اور جنگوں کے لیے گھروں سے نکل جاتے جس سے ان کے مکان خالی ہو جاتے اس پر عرب کہتے صفر المکان “ یعنی مکان خالی ہو گئے ، اس سے اس مہینے کا نام صفر سے موسوم ہو گیا۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ دور کے بہت سے مسلمان بھی ماہ صفر منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بدشگونی لیتے ہیں اور اس کی وجہ سے سائن کرتے ہیں کہ یہ مہینہ رحمتوں
اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے۔
چنانچہ جیسے ہی یہ مہینہ شروع ہوتا ہے ، نادانوں کی جانب سے اس مہینے سے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں پر مشتمل پیغامات پھیلائے جاتے ہیں
جاہلیت کے عقائد اور غلط فہمیاں
1.منحوس مہینہ:
اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ صفر کا مہینہ بدقسمتی اور مصیبتوں کا باعث ہوتا ہے، اور اس میں سفر کرنا یا اہم کام انجام دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
2. بلائیں اور آفات:
وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس مہینے میں زیادہ بیماریاں اور آفات آتی ہیں، اور بعض لوگ یہ بھی مانتے تھے کہ اس مہینے میں شیاطین آزاد ہوتے ہیں۔
3. صفر میں شادی اور خوشی کی تقریبات منعقد نہ کرنا:
عربوں میں یہ تصور تھا کہ صفر کے مہینے میں نکاح یا خوشی کی تقریبات منعقد کرنا نحوست کا باعث بن سکتا ہے۔
اب بھی بعض لوگ صفر کے مہینے میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات منعقد نہیں کرتے، او اعتقاد رکھتے ہیں کہ صفر میں کی ہوئی شادی صفر (زیر و) اور ناکام ہو جاتی ہے ، اور ربیع الاول کے مہینہ سے اپنی تقریبات شروع کر دیتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ صفر کے مہینے کو نامبارک اور منحوس سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال باطل اور تو ہم پرستی میں داخل ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہل عور تیں ذی قعدہ کو خالی کا چاند کہتی ہیں اور اس میں شادی کرنے کو منحوس سمجھتی ہیں، یہ اعتقاد بھی گناہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہیے ، اسی طرح بعض جگہ تیرہ تاریخ صفر کے مہینے کو نامبارک سمجھتی ہیں۔ یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، ان سے تو بہ کرنی چاہیے۔
4.جنات کا آسمان سے نزول کا عقیدہ رکھنا:
بعض علاقوں میں مشہور ہے کہ اس مہینہ میں لنگڑے، لولے اور اندھے جنات آسمان سے اترتے ہیں، اور چلنے والوں کو کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھ کر قدم رکھو! کہیں جنات کو تکلیف نہ ہو۔ بعض لوگ اس مہینہ میں صندوقوں، پیٹیوں اور درو دیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں، تا کہ جنات بھاگ جائیں۔ یہ سب باتیں بھی بے بنیاد ہیں۔ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وَالْفِتَنُ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ نَفْيًا لِمَا يُتَوَهُمُ أَنَّ شَهْرَ صَفَرَ تَكْثُرُ” فِيهِ الدَّوَاهِي”
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
آپ صلی اسلام نے “لا صفر ” ( صفر کی کچھ حیثیت نہیں ) فرما کر اس باطل خیال کی نفی فرمائی کہ اس ماہ میں بلائیں اور فتنے کثرت سے آتے ہیں۔
5.قرآن خوانی کرانا:
ماہِ صفر میں خاص طور پر قرآن خوانی کو لازم سمجھنا یا اس مہینے کو منحوس قرار دے کر اس کی نحوست کو دور کرنے کے لیے قرآن خوانی کرنا ایک غیر شرعی عمل ہے۔
اسلام کی تصحیح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جاہلانہ نظریات کو رد کیا اور واضح فرمایا کہ:
1. نحوست کا کوئی تصور نہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة، ولا صفر” (بخاری: 5707، مسلم: 2220)
(ترجمہ: نہ کوئی بیماری متعدی ہوتی ہے، نہ بدشگونی کا کوئی اثر ہے، نہ الو کی نحوست ہے، اور نہ صفر کی کوئی نحوست ہے۔)
2. توہمات سے بچنے کی تلقین:
آپ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ زمانۂ جاہلیت کے ان بے بنیاد خیالات کو ترک کریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔
3. خیر و برکت کا مہینہ:
اسلام نے کسی بھی مہینے کو منحوس قرار نہیں دیا بلکہ ہر وقت اور زمانہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، اور اس میں نحوست یا بدشگونی کا کوئی تصور نہیں۔
ماہِ صفر کے متعلق جاہلانہ تصورات بے بنیاد ہیں، اور اسلام نے ان کی سختی سے تردید کی ہے۔ یہ مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح اللہ کا بنایا ہوا ہے، اور اس میں کسی قسم کی نحوست نہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم توہمات سے بچیں اور ہر مہینے کو نیکی اور برکت کے لیے استعمال کریں۔
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ” يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بيدِي الْأَمْرُ أَقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے ، زمانے کو برابھلا کہتا ہے ، حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیر تا رہتا ہوں۔ اس سے واضح ہو کہ نحوست کی اصل وجہ زمانہ نہیں ہے، نہ کوئی دن منحوس ہے اور نہ کوئی مہینہ ، بلکہ نحوست کی اصل وجہ انسان کے اپنے برے اعمال ہیں، جیسا کہ سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ
جو مصیبت بھی تم پر پڑتی ہے، وہ تمہارے کی ے ہوئے” اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔”
4: اسلام میں صفر کے مہینے میں شادی کا تصور:
واضح رہے کہ شریعت میں سال کے بارہ مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور شادی ناکام ہو جاتی ہو۔ زمانہ جاہلیت میں شوال کے مہینے میں نکاح کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو توڑا اور شوال کے مہینے میں شادی کر کے دکھائی۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحْطَى عِنْدَهُ مني؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال میں شادی فرمائی، میری رخصتی بھی شوال میں ہوئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون تھی ؟“ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اہل عرب شوال میں نکاح کرنے کو یا شوال میں رخصتی کرا کر دلہن گھر لانے کو برا سمجھتے تھے ، اور بد فالی لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا مقصد اسی غلط خیال کی تردید ہے کہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی، تو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ خوش نصیب میں کیوں کر ہوتی ؟!
اس خیال کے باطل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح ایک اہم عبادت ہے ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کی سنت اور ان کا طریقہ ہے ، نکاح کے ذریعہ سے آدمی بد نظری سے بچ جاتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہو جاتی ہے ،
حدیث شریف میں ہے کہ “ بندہ نکاح کر کے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے“۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب نکاح اتنی اہم عبادت ہے ، تو اس سے کیسے منع کیا جا سکتا ہے ؟
لہذا اس مہینہ میں بھی نکاح کی عبادت کو انجام دینا چاہیے ، تاکہ ایک باطل اور غلط عقیدہ کی تردید ہو ، اور صفر میں نکاح کے جائز اور عبادت کے مٹ جانے کو زندہ کیا جا سکے۔
5.ماہ صفر میں مخصوص قرآن خوانی کی حقیقت :
قرآن خوانی بذاتِ خود ایک نیک عمل ہے، لیکن اگر اسے کسی خاص مہینے یا وقت کے ساتھ لازم کر دیا جائے، یا اس کے بغیر نحوست سے نجات ممکن نہ سمجھی جائے، تو یہ بدعت شمار ہوگا۔
اسلام میں نحوست کا کوئی تصور نہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے واضح فرمایا کہ صفر کا مہینہ بھی دوسرے مہینوں کی طرح ہے، اس میں کوئی نحوست نہیں۔
قرآن خوانی کا مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہیے، نہ کہ کسی توہم پرستی یا بے بنیاد عقیدے کی بنیاد پر۔
کیا قرآن خوانی منع ہے؟
نہیں، قرآن خوانی منع نہیں، بلکہ یہ باعثِ ثواب ہے، لیکن اسے کسی خاص نحوست کو دور کرنے کے لیے مخصوص کر لینا درست نہیں۔
اگر کوئی شخص عام حالات میں قرآن کی تلاوت کرے، دعا کرے، اور نیک اعمال انجام دے، تو یہ بالکل درست ہے۔
لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ صفر کے مہینے میں خاص طور پر قرآن پڑھنا ضروری ہے، ورنہ نقصان ہو گا، تو یہ عقیدہ غلط ہے۔
ماہِ صفر میں قرآن خوانی کرنا جائز ہے، مگر اسے لازم سمجھنا یا کسی بدشگونی کے نظریے کے تحت کرنا غیر شرعی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ہر مہینے اور ہر دن اللہ کے ذکر، قرآن کی تلاوت، اور دعا کو معمول بنائیں، بغیر کسی خاص نحوست کے تصور کے۔
بد شگونی سے بچنے کی دعا
سيدنا عروة بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بدشگونی کا ذکر کیا گیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: اچھا شگون ، فال نیک ہے اور بد شگونی کسی مسلمان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتی، پس جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے ، جس کو وہ ناپسند کرتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ یہ دعاء پڑھے:
اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت، ولا يدفعَ السَّيِّئَاتِ إلا أنت، ولا حَولَ ولا قوة إلا بك
اے اللہ ہر قسم کی بھلائیوں کو لانے والا تو ہی ہے، اور تمام قسم کی برائیوں کو دفع کرنے والا بھی تو ہی ہے ، نہ برائی سے بچنے کی کوئی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی کوئی قوت ہے، مگر اللہ ہی کی مدد ہے۔